Sunday, September 18, 2011

*غزل
جگر مرادآبادی 

محبت کار فرماۓ  تو دو عالم ہوتی جاتی ہے
کہ ہر دنیاے دل شائستۂ غم ہوتی جاتی ہے

ہر اک صورت اک تصویر مبہم ہوتی جاتی ہے
 الٰہی! کیا میری دیوانگی کم ہوتی جاتی ہے

زمانہ گرم رفتارِ ترقّی ہوتا جاتا ہے
مگر اک چشمِ شاعر ہے کہ پُرنَم ہوتی جاتی ہے

جہاں تک توڑتا جاتا ہوں رسمِ ظاہر و باطن
یہ محفل اور برہم اور برہم ہوتی جاتی ہے

نزاکت ہاۓ احساسِ محبت اے معاذ اللّٰہ!
کہ اب اِک اِک گھڑی ایک ایک عالم ہوتی جاتی ہے

غرورِ حُسن رخصت! الفراق اے نازِ خُود بینی!
مزاجِ حُسن سے اب تمکنت کم ہوتی جاتی ہے

یہی جی چاہتا ہے چھیڑتے ہی چھیڑتے رہیے
بہت دل کش اداۓ حُسنِ برہم ہوتی جاتی ہے  

ارے توبہ! یہ تکمیلِِ شباب و حُسن ارے توبہ!
کہ ہر ظالم ادا تقدیرِ عالم ہوتی جاتی ہے

تصوّر رفتہ رفتہ اک سراپا بنتا جاتا ہے
وہ اک شہ مجھ ہی میں ہے، مجسّم ہوتی جاتی ہے

وہ رہ رہ کر گلے مل مل کر رخصت ہوتے جاتے ہیں
مری آنکھوں سے یا رب! روشنی کم ہوتی جاتی ہے

جدھر سے میں گزرتا ہوں نگاہیں اٹھتی جاتی ہیں  
مری ہستی بھی کیا تیرا ہی عالم ہوتی جاتی ہے ؟ 

جؔگر! تیرے سکوتِ غم نے یہ کیا کہ دیا ان سے!
جھکی جاتی ہیں نظریں، آنکھ پُرنَم ہوتی جاتی ہے۔

*Transliteration and Translation coming soon, if needed please visit http://www.google.com/transliterate/Urdu or http://translate.google.com/

No comments:

Post a Comment